Islamic waqiyat in Urdu 

Islamic waqiyat+story in Urdu 

حضرت فاطمہؒ جب بیمار ہوئیں تو ان کا حال پوچھنے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک صحابی کے ساتھ آئے،دروازے پر دستگی پوچھا کہ بیٹی اندر آ جائیں، حضرت فاطمہؒ نے کہا کہ اتنا کپڑا نہیں ہے کہ پردہ کرسکوں۔  بسم اللہ الرحمن الرحیم، ایک دفعہ حضرت فاطمہؒ بیمار ہو گئیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک معامل صحابی حضرت عمران بن حسینؒ کو ہمراہ لیا اور اپنی لگتے جگر کی آیادت کے لیے تشریف لے گئے۔  دروازے پر پہنچ کر داخلے کی اجازت مانگی، سیدہ فاطمہؒ نے عرض کی تشریف لائیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے ساتھ عمران بن حسینؒ بھی ہیں، حضرت فاطمہؒ نے جواب دیا اباجان میرے پاس ایک ابا کے سوا دوسرا کوئی کپڑا نہیں ہے کہ پردہ کرسکوں۔  حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر اندر پھینک کر فرمایا بیٹی اس سے پردہ کر لو۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عمرانؒ اندر تشریف لے گئے اور سیدہ سے ان کا حال پوچھا۔ حضرت فاطمہؒ نے عرض کیا اباجان شدد درد سے بیچین ہوں اور بھوک نے نڈھال کر رکھا ہے کیونکہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں۔  حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے میری بیٹی سبر کر میں بھی آج تین دن سے بھوکا ہوںاللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگتا وہ ضرور مجھے عطا کرتا لیکن میں نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست شفقت حضرت فاطمہؒ کی پشت پر پھیرا اور فرمایا  اے لخت جگر دنیا کے مسائب سے دل شکستا نہ ہو تم

جنت کی عورتوں کی سردار ہو۔  فاطمہؒ اس فکر و غناء کے ساتھ کمال درجے کی عابدہ تھی۔ حضرت حسنؒ سے روایت ہے کہ میں نے اپنی ماں کو شام سے صبح تک عبادت کرتے اور اللہ کے حضور کی ریاضاری کرتے دیکھا ( لیکن انہوں نے اپنی دعاوں میں اپنے لئے کبھی کوئی درخواست نہ کی۔  ایک دفعہ سیادہ علیل تھی لیکن علالت میں بھی رات بھر عبادت میں مصروف رہی۔  جب حضرت علیؒ صبح کی نماز کے لئے مسجد گئے تو وہ نماز کے لئے کھڑی ہو گئی۔  نماز سے فارغ ہو کر چکی پیسنے لگی۔  حضرت علیؒ نے واپس آ کر انہیں چکی پیسنے دیکھا تو فرمایا  اے رسول خدا کی بیٹی اتنی مشکت نہ اٹھایا کرو، تھوڑی دیر آرام بھی کر لیا کرو، کہیں زیادہ بیمار نہ ہو جاؤ۔ ( فرمانے لگیں خدا کی عبادت  اور آپ کی عطا مرز کا بہترین علاج ہے۔ (اگر ان میں سے کوئی موت کا باعث بن جائے تو اس سے بڑھ کر میری خوش نصیبی کیا ہوگی؟ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیادہ سے پوچھا مسلمان عورت کی اعصاف کیا ہیں؟  انہوں نے عرص کیا ابباجان عورت کو چاہیے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرے،  اولاد پر شفقت کرے، اپنی نگاہ نیچے رکھیں،  اپنی زینت کو چھپائیں، نہ خود غیر کو دیکھیں، نہ غیر اس کو دیکھ پائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ جواب سن
 کر بہت خوش ہوئے۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔  صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غارہ بنت عبی جہل سے نکاح کا ارادہ کیا۔  سید النسا صخت عرضدہ ہوئی، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے تو سیدہ نے عرض کیا  یا رسول اللہ علی مجھ پر سوت یعنی سوکن لانا چاہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر سخت چوت لگی۔  ادھر غارہ کے سرپرست بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نکاح کی اجازت لینے آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور ممبر پر چڑھ کر فرمایا  آلِ حشام علی سے اپنی لڑکی کا عقد کرنے کے لیے مجھ سے اجازت چاہتے ہیں لیکن میں اجازت نہ دوں گا۔  البتہ علی میری لڑکی کو طلاق دے کر دوسری لڑکی سے شادی کر سکتے ہیں۔  فاطمہ میرے جسن کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو عزیت دی اس نے مجھے عزیت دی۔ جس نے اس کو دکھ پہنچایا اس نے مجھے دکھ پہنچایا۔  میں حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن اللہ کی قسم اللہ کے رسول کی بیٹی اور دشمنِ خدا کی بیٹی دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارادہ نکاح فوراں ترک کر دیا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی زندگی تک پھر دوسرے نکاح کا خیال تک دل میں نہ لائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسی محبت اپنی بیٹی سے تھی  ویسے ہی اپنے داماد اور نوازوں سے بھی بے حد پیار تھا۔ ان سے فرمایا کرتے ہیں جن لوگوں سے تم نراز ہوں گے میں بھی ان سے نہ خوش ہوں گا۔  جن سے تمہاری لڑائی ہے ان سے میری بھی لڑائی ہے۔  جن سے تمہاری صلح ہے ان سے میری بھی صلح ہے۔  حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کرتے اے علی تم دنیا میں اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔  فاطمہ تزہرہ رضی اللہ عنہ کی فرزندوں سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو ( حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے ذگر کے ٹکڑے سمجھتے تھے۔  نہائیت محبت سے ان کو بوسے دیتے اور اپنے کندوں پر اٹھائے پھرتے تھے۔  حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا عورت کے لیے کون
 سی بات سب سے بہتر ہے۔ اس پر صحابہ رضوان اللہ علیہ مجمعین خاموش ہو گئے اور کسی نے جواب نہیں دیا۔  حضرت علی کہتی ہے کہ میں نے واپس آکر حضرت فاطمہ رضی اللہ اکرم نہائی سے دریافت کیا کہ عورتوں کے لیے سب سے بہتر کیا بات ہے. حضرت فاطمہ رضی اللہ طلعنہ نے فرمایا  نہ وہ مردوں کو دیکھیں اور نہ مرد ان کو دیکھیں۔ تو میں نے جوابں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  فاطمہ رضی اللہ طلعنہ میری لخت زگر ہے (حضرت فاطمہ رسی اللہ تعالیٰ نے ایک تفاہ عثمہ بنت عمیس رسی اللہ تعالیٰ سے کہا کہ مجھے ہیا آتی ہے کہ جب میرا انتقال ہو تو لوگ مردوں کے تخت پر لٹا کر اور ایک کپڑا اڑھا کر مجھ سے کندے پر اٹھا لیں۔ اس لیے اندیشہ ہے کہ کپڑے کے اوپر سے میرا جسم ظاہر ہو تو حضرت عثمہ رسی اللہ تعالیٰ نے کہا جگرِ گوشہِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ دکھاؤں جو میں نے حبشہ میں دیکھی تھی؟ حضرت فاطمہ 
رسی اللہ تعالیٰ نے کہا کیوں نہیں ضرور  حضرت عثمہ رسی اللہ تعالیٰ نے کھجور کی تازہ ٹہنیاں منگوائیں  کمان کی شکل میں ان کو مور مور کر رکھا اور ان کے اوپر کپڑا ڈال دیا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تو بڑی اچھی چیز ہے  اس سے مرد و عورت کے جنازے میں امتیاز ہو جائے گا  اور عورت کا جسم بھی چھپ جائے گا (دیکھو عثمہ جب میرا انتقال ہو تو تم اور علیؑ میرے غسل میں شریک ہوں  کوئی اور میرے قریب نہ آئے اور میری چارپائی پر اسی طرح چھڑیاں رکھ دینا جب حضرت فاطمہ رسی اللہ تعالیٰ کا انتقال ہوا  تو حضرت عثمہ رضی اللہ تعالیٰ نے دلہن کے ڈولی کی طرح ایک پردہ پوش چادر چارپائی تیار کی  اور کہا فاطمہ نے مجھے اس کی وسیعت کی تھی ان روایات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت فاطمہ رسی اللہ تعالیٰ پردے کا کتنا احتمام فرماتی تھی یہی وجہ تھی کہ آپ ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ کی پاک دامنی پر  جنت کی خوشخبری سناتے ہوئے ارشاد فرمایا  فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ نے اپنی اسمت اور پاک دامنی کی ایسے حفاظت کی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی پاک دامنی کی وجہ سے اسے  اور اس کی اولاد کو جنت میں داخل فرما دیا اور ایک روایت میں ہے کہ بی شکفاطمہ رسی اللہ تعالیٰ نے  اپنی اسمت اور پاک دامنی کی حفاظت کی (تو اللہ تعالیٰ نے اس کی اولاد پر جہنم کی آگ حرام کر دی حضرت عمیؐ سلمہ رسی اللہ تعالیٰ فرماتی ہے  جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی تو انسار کی خواتین اپنے گھروں سے اس طرح نکلیں کہ گویا ان کے سر اس طرح بے حرکت تھے  جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہو  اور ان کے اوپر کالا کپڑا تھا جس کو وہ پہنی ہوئی تھی  حضرت عائشہ رسی اللہ تعالیٰ انہا روایت فرماتی ہے  ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صفر حج میں حالت احرام میں تھی جب ہمارے پاس سے کوئی سوار گزرتا تو ہم اپنی چادروں کو  اپنے سروں سے لٹکا کر چہرے کے سامنے کر لیتی  اور جب لوگ گزر جاتی تو ہم چہرے کھول لیتی حضرت قیس بن شماس سے روایت ہے کہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی  اس کا نام ام خلاد تھا اور اس کے چہرے پر نقاب پڑا ہوا تھا یہ عورت اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کر رہی تھی جو جنگ میں شہید ہو گیا تھا اصحاب رسول میں سے کسی نے آپ کو نقاب میں دیکھ کر کہا  اس وقت بھی آپ نے نقاب ڈال رکھا ہے  آپ نے جوابا فرمایا میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے حیاء نہیں کھوئی  اللہ پاک تمہاں مسلمان عورتوں کو پردی کی توفیق عطا فرمائے ہمیں دین کے مکمل سمجھ رسیب فرمائے  اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے آمین 

Islamic waqiyat in Urdu click here the following
Click here for

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here